تباہی کا اپنی نشان چھوڑ آئے
تباہی کا اپنی نشان چھوڑ آئے
ورق در ورق داستان چھوڑ آئے
ہر ایک اجنبی سے پتا پوچھتے ہیں
تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے
وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساس سود و زیاں چھوڑ آئے
نکل آئے تنہا تیری راہگزر پر
بھٹکتے کو ہم کاروں چھوڑ آئے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ