اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نا پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے میرے . . . !
کے شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے . . . ؟
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
میرے سفر میں ایک ایسا بھی موڑ عطا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل ، یہ سارا سر نگار خانہ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشان
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کے میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ