اسے دیکھنا

اسے دیکھنا

رات جگے ہوں کے بھرپور نیندیں مسلسل اسے دیکھنا ،
وہ جو آنکھوں میں ہے اور آنکھوں سے اوجھل اسے دیکھنا .

اس کڑی دھوپ میں دل ٹپکتے ہیں اور بام پر وہ نہیں ،
کل نئے موسموں میں جب آئیں گے بادل اسے دیکھنا .

وہ جو خوشبو بھی ہے اور جگنو بھی ہے اور آنْسُو بھی ہے ،
جب ہوا گنگنائے گی ناچے گا جنگل اسے دیکھنا .

جو ہواؤں میں ہے اور فضاؤں میں ہے اور دعاؤں میں ہے ،
کون پھیلائے دامن کے لہرائے آنچل اسے دیکھنا .

شاعری میں بھی اس جان جان کا سراپا سماتا نہیں ،
اور آنکھوں کی دیرینہ خواہش مکمل اسے دیکھنا .

یہ بھی کیا سوچنا ہے کے ہر وقت نادان اسے سوچنا ،
یہ بھی کیا دیکھنا ہے کے ہر سمت پاگل اسے دیکھنا .

شام وعدہ سہی دکھ زیادہ سہی پھر بھی دیکھو فراز ، ،
آج شب اس کی فرقت میں کہہ لو غزل کل اسے دیکھنا . . .

Posted on Feb 16, 2011