وصال و ہجر میں
وصال و ہجر میں
یا خواب سے محروم آنکھوں میں
کسی عہد رفاقت میں
کے تنہائی کے جنگل میں
خیال خال و خد کی روشنی کے گہرے بادل میں
چمکتی دھوپ میں یا پھر
کسی بے ابر سائے میں
کہیں بارش میں بھیگے جسم و جان کے نثرپاروں میں
کہیں ہونٹوں پے شاعروں کی مہکتے آبشاروں میں
چراغوں سے سجی شاموں میں
یا بے نور راتوں میں
سحر ہو رونما جیسے کہیں باتوں ہی باتوں میں
کوئی لپٹا ہوا ہو جس طرح
صندل کی خوشبو میں
کہیں پے تتلیوں کے رنگ تصویریں بنا تے ہوں
کہیں پے جگنوؤں کی مٹھیوں میں روشنی خود کو چھپتی ہو
کہیں کیسا ہی منظر ہو
کہیں کیسا ہی موسم ہو
تیرے سارے حوالے ہوں
تیری ساری مثالوں کو
محبت یاد رکھتی ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ