یہ جو وقت ہے میرے شہر پر کئی موسموں سے رکا ہوا

یہ جو وقت ہے میرے شہر پر کئی موسموں سے رکا ہوا
اِسے اِذْن دے کے سفر کرے
اِسے حکم دے کے چل پڑے ، میرے آسْمان سے دور ہو
کوئی چاند چہرہ کشا کرے ، کوئی آفتاب ظہور ہو
کے نوا چشم خیال میں وہ جو خواب تھے ، وہ دھواں ہوئے
وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی ، جو یقین تھے وہ گمان ہوئے
کوئی دھند ہے جسے دیکھتے میری آنکھ برف سی ہو گئی
وہ عبارت سر لوح دل ، کسی ربط سے نہیں آشْنا
کے جو روشنی تھی کتاب میں وہی حرف حرف سی ہو گئی
کوئی گردباد اُٹھے کہیں ، کسی زلزلے کی نمود ہو
میری آنکھ میں یہ جو رات ہے ، میری عمر سی ، اِسے ٹال دے
میرے دشت ریگ ملال کو کسی خوشخبری کا غزل ڈے
یہ فلک پہ جتنے نجوم ہیں تیرے حکم کے ہیں یہ منتظر
وہ جو صبح نو کا نقیب ہو میری سمت اس کو اچھال دے

Posted on Sep 19, 2011