زندگی کے میلے میں ، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جانا !
اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے ، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے ، سخت لا مکانی ہے
حجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کھانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں ؟
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں ، بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے پر تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیے کی ہے ، بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے ، بات رتجگے کی ہے
پیار کرنے والوں کو ایک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ ایک دن اکیلے میں
تم سے کایہ کہیں جانا ! اس قدر جھمیلے میں ! ! !
Posted on Sep 19, 2011
سماجی رابطہ