یوں تو لاکھ گزرے

یوں تو لاکھ گزرے

یوں تو لاکھ گزرے ہیں چہرے ان نگاہوں میں
نقش ہوں گیا چہرہ ایک بس خیالوں میں

اس طرف قدم اُٹھے تو مجھے لگا ایسے
لمحہ لمحہ گزرا ہے وہ سفر اُجالوں میں

ہم نے آزمانے کو کچھ سال پوچھے تھے
کس قدر ملاحت تھی اس کے سب جوابوں میں

دیکھتی رہوں اس کو سوچتی رہوں اس کو
کیا نشہ سا ہوتا ہے اس کی نرم باتوں میں

ہم سے پوچھے کوئی کس طرح کا ہے ساجن
ہم بتائیں گے وہ اک چاند ہے ستاروں میں

Posted on Feb 16, 2011