زخم بھر جاتے ہیں

زخم بھر جاتے ہیں

ذہنوں سے اُتَر جاتے ہیں

دن گزرتا ہے تو پھر شب بھی گزر جاتی ہے

پھول جس شاخ سے جھڑ جاتے ہیں

مر جاتے ہیں

چند ہی روز میں

اس شاخ پہ آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے

ابھر آتے ہیں !

تیرے جانے سے میری ذات کے اندر

جو خلا گونجتا ہے

اک نا اک دن اسے بھر جانا ہے

اک نا اک روز تجھے

میری پھیلی ہوئی ، ترسی ہوئی بانہوں میں

پلٹ آنا ہے !

Posted on Sep 19, 2011