بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے صفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر کے بارش کی چاھ میں
کتنے بلند و بلا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کے چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بیباک ہو گئے
جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوا شام کے نم ناک ہو گئے
ساحل پہ جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے . . . !
Posted on Jul 31, 2012
سماجی رابطہ