کھلیگی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ
کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے
کٹھن ہو راہ تو چھوٹتا تا ہے گھر آہستہ آہستہ
بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے
کے تھکتا جا رہا ہے ہمسفر آہستہ آہستہ
خلش کے ساتھ اس دل سے نا میری جان نکل جائے
کھینچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ
ہوا ہے سرکشی میں پھل کا اپنا زیان ، دیکھا
سو جھکاتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ
میری شعلہ مزاجی کو وہ جنگل کیسے رس آئے
ہوا بھی سانس لیتی ہو جدھر آہستہ آہستہ . . . !
Posted on Aug 01, 2012
سماجی رابطہ