میری وفا نے کھلائے تھے جو گلاب سارے جھلس گئے ہیں

میری وفا نے کھلائے تھے جو گلاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری آنکھوں میں جس قدر تھے وہ خواب سارے جھلس گئے ہیں


میری زمین کو کسی نئے حادثے کا ہے انتظار شاید
گناہ پھیلنے لگے ہیں اَجْر و ثواب سارے جھلس گئے ہیں


جو تم گئے تو میری نظر پہ حقیقتوں کے عذاب اُترے
یہ سوچتا ہوں کے کیا کروں گا سراب سارے جھلس گئے ہیں


یہ معجزہ صرف ایک شب کی مسافتوں کے سبب ہوا ہے
تمھارے اور میرے درمیان کے حجاب سارے جھلس گئے ہیں


اسے بتانا کے اسکی یادوں کے سارے صفحے جلا چکا ہوں
کتاب دل میں رقم تھے جتنے وہ باب سارے جھلس گئے ہیں


نظر اُٹھائوں میں جس طرف بھی مہیب سائے ہیں ظلمتوں کے
یہ کیا کے میرے نصیب کے مہتاب سارے جھلس گئے ہیں


تمہاری نظروں کی یہ تپش ہے کے میرے لفظوں پہ آبلے ہیں
سوال سارے جھلس گئے ہیں جواب سارے جھلس گئے ہیں


یہ آگ خاموشیوں کی کیسی تمہاری آنکھوں میں تیرتی ہے
تمھارے ہونٹوں پہ درج تھے جو نصاب سارے جھلس گئے ہیں

Posted on Aug 27, 2012