سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا ، پتوار ہوتی جا رہی ہے
دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ھموار ہوتی جا رہی ہے
کئی دن سے میرے اندر کی مسجد
خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے
مسائل ، جنگ ، خوشبو ، رنگ ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے
کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں
ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے
کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے
صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے
گلے کچھ دوست آکر مل رہے ہیں
چُھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے
Posted on Aug 25, 2012
سماجی رابطہ