یقین ٹوٹ گیا تو بحال پھر نہ ہوا
یہ وہ زوال ہے جس کو کمال پھر نہ ہوا
بس ایک بار کسی رو میں اس کو سوچا تھا
اس آئینے میں دھڑکتا خیال پھر نہ ہوا
تلاشتے ہی رہو گے عبث، ملے گا نہیں
جو اپنی مٹھی سے نکلا وہ سال پھر نہ ہوا
گو ابتدا میں تو ہم بھی بکھر بکھر سے گئے
ہاں اس کے بعد ہمیں بھی ملال پھر نہ ہوا
قدم قدم پہ مسیحا ہزارہا دیکھے
یہ اور بات کہ "عیسٰی مثال" پھر نہ ہوا
جو دل کی مٹی کو چھو کر گلاب کر ڈالے
ہنروروں میں کوئی باکمال پھر نہ ہوا
کسی کی آنکھوں میں ایسا جواب لکھا تھا
بتول ہونٹوں سے کوئی سوال پھر نہ ہوا
Posted on Jan 16, 2013
سماجی رابطہ