یہ 2006ء کی بات ہے کہ امریکہ کے امیر ترین کروڑ پتی رابرٹ کو گزشتہ کچھ عرصے سے ایک انوکھا شوق ہوگیا۔ اس نے اپنی ساری جمع پونجی بینک سے نکال کر ان کے روپوں کے بدل سکے لے لیے۔ امیر ہونے کی وجہ سے ان سکوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ انہیں رکھنے کے لیے اس نے اپنے گھر کے 2 ایکڑ رقبہ پر مشتمل لان میں انہیں رکھا۔ 70 سالہ رابرٹ نے ان سکوں کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ تعینات کروالیا۔
انوکھا شوق
انوکھا شوق
آسٹریلیا کے مہم جو نوجوانوں پر آج کل ایک نیا جنون سوار ہے۔ وہ مخصوص بار میں جا کر سانپ کے زہر پر مشتمل ایک زہریلا مشروب پیتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ مشروب ان کے لیے موت کا پیغام ہوسکتا ہے۔ یہ زہریلا مشروب پینے سے اب تک سولہ نوجوان موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں لیکن اس زہریلے مشروب پینے کے جنون میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پرتھ میں ایک بار کے مالک نے بتایا کہ ہمارے یہاں عام طور پر نوجوان اور منچلے لوگ زیادہ آتے ہیں اور یہ بار موت کے کھیل کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں چند برس پہلے ایک خوفناک روسی کھیل بہت مقبول ہوا تھا جس میں چار افراد پستول میں تین گولیاں بھر کر اسے کنپٹی پر رکھ کر ٹرائیگر دباتے تھے۔ پستول میں چھ کی بجائے تین گولیاں ہوتی ہیں۔ اگر گولی سامنے والے خانے میں موجود ہو تو یہ خونی کھیل کھیلنے والے کا بھیجا چیر کر گزرجاتی ہے۔ بار کے مالک جان آوٹ بیک نے بتایا کہ یہ خونی کھیل پہلے ویت نام اور پھر آسٹریلیا میں مقبول ہوا لیکن ہم اب نوجوانوں کو یہ نہیں کھیلنے دیتے کیونکہ ان کا خون فرش پر پھیل جاتا ہے اور کوئی اسے صاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کھیل کے بعد ہم نے جاپان کی زہرآلودہ مینوگر مچھلی کو متعارف کرایا جس کے کھانے سے جسم میں زہر پھیل سکتا ہے لیکن آسٹریلیا کے نوجوانوں کو اس مچھلی کا ذائقہ پسند نہیں آیا چناچہ اب ہم نے آسٹریلیا کے زہریلے سانپوں کا مشروف شروع کیا ہے جسے نوجوان بڑے شوق سے پیتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اس مشروب کو پیتے ہی مر جائیں لیکن بہرحال اس میں اتنا زہر ہوتا ہے کہ وہ مرسکتے ہیں۔ ہمیں خود علم نہیں ہوتا کہ یہ زہر کس حد تک موثر ثابت ہوگا تاہم زہر آخر زہر ہے۔ اب تک سولہ نوجوان اس مشروب کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بعض نوجوان اس مشروب میں پانی بھی نہیں ملاتے۔ اس زہریلے مشروب کے پینے سے 41 نوجوانوں کی حالت نازک ہے۔ جوں جوں بار کا نام اس سلسلے میں بدنام ہورہا ہے دنیا بھر میں منچلے سیاح اس طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ آسٹریلیا کے ایک ڈاکٹر کا کنہا ہے کہ یہ سانپ واقعتاً زہریلے ہوتے ۔ جو لوگ یہ زہرآلودہ مشروب پیتے ہیں وہ سانپ کے کاٹے سے محفوظ رہتے ہیں لیکن یہ زہر خود ان کے لیے بھی زہریلا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ زہر آہستہ آہستہ اثرکرتا ہے چناچہ جب نوجوان کو نشہ چڑھتا ہے تو وہ پھر نہیں بتاسکتے کہ ایسا سانپ کے زہر کی وجہ سے ہورہا ہے یا شراب کا اثر ہے۔ اس بار کے مالک کا کہنا ہے کہ ہر پانچ نوجوانوں میں سے ایک مشروب پینے سے ہلاک ہوجاتا ہے لیکن مہم جو منچلے نوجوان شوق سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
سماجی رابطہ