1 جولائی 2011
وقت اشاعت: 5:49
مالی سال11-2010:مشکل معاشی حالات میں روپے کی شاندار کارکردگی
اے آر وائی - کراچی : گذشتہ مالی سال معیشت کے مختلف اشاریوں کی طرح ملک کا ایکس چینج ریٹ بھی مسلسل اتار چڑھاؤ کی زر میں رہا۔ تاہم کئی درپیش چیلنجز کے باوجود روپے کی قدر میں نمایاں گراوٹ نہیں دیکھی گئی۔
مالی سال دو ہزار دس گیارہ کے آغاز پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ پچاسی روپے ستر پیسے پر ٹریڈ ہورہا تھا۔ اور تیس جون کو اس کی قدر چھیاسی روپے بیس پیسے کی سطح پر دیکھی گئی۔ یوں امریکی ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی قدر میں پچاس پیسے کمی ہوئی۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مشکل معاشی حالات کے درمیان روپے کی قدر میں معمولی گراوٹ۔ دراصل گراوٹ نہیں ہے۔ گذشتہ مالی سال کے آغاز پر ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ کم و بیش اٹھاسی لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ کاشت کی گئیں اور تیار فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اس صورتحال میں خدشہ تھا کہ درآمدات پر انحصار بڑھے گا اور روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی ہوگی۔
دوسری جانب مالیاتی عدم توازن، توانائی بحران، حکومت کا قرضوں پر بڑھتا ہوا رجحان، درآمدی بل بڑھنے اور کموڈیٹیز مہنگی ہونے کے باعث روپے کی قدر پهر دباؤ بڑھتا رہا۔ لیکن دوسری جانب کئی عوامل ایسے بھی تھے جو روپے کو مسلسل استحکام بخشتے رہے۔ انہی میں ایک کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونا بھی تھا۔ سات سال بعد پہلی مرتبہ گذشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ بیس کروڑ ڈالر سرپلس رہا۔ مالی سال دو ہزار نو دس میں یہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر خسارے میں تھا۔
مجموعی ملکی برآمدات کا حجم ستائیس فیصد بڑھ کر تئیس ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچنے کی وجہ سے بھی ایکس چینج ریٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے گذشتہ مالی سال ریکارڈ رقوم وطن بھجوائیں۔ اور ان میں گذشتہ سال کی نسبت پچیس فیصد اضافہ ہوا۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں چونہتر کروڑ تیس لاکھ ڈالر موصول ہونے سے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا نہیں ہوئی۔ ملکی زرمبادلہ ذخائر بھی سترہ ارب پچاس کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر دیکھے گئے۔
گذشتہ مالی سال روپے کے مقابلے میں جن کرنسیز کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا ان میں آسٹریلین ڈالر سر فہرست ہے انیس روپے مہنگا ہوا۔ اس کے بعد پاؤنڈ اسٹرلنگ کی قدر میں دس روپے اور کینیڈین ڈالر میں سات روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔