1 جون 2011
وقت اشاعت: 18:45
عالمی میڈیاکا پاکستان کے ایمٹی پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا
واشنگٹن : سامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے فوری بعد سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف امریکااور بھارت سمیت مغربی ممالک کے میڈیا نے تسلسل کے ساتھ ایک زہریلی مہم جاری ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک کی رپورٹ کے مطابق پاکستا نی حکام بھارت کے خطرے کے پیش نظر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریا ں تیزی سے کر رہے ہیں بھارت آئندہ پانچ برسوں میں فوج پر50ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ پاکستان کے پاس 100سے زائد وارہیڈز ہیں اور ہر سال 8سے20نئے وارہیڈ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔برطانوی اخبار دی ،مرر کے مطابق اسامہ کی ہلاکت کے بعد امریکا پاکستان کے اثاثوں کو ہدف بنا سکتا ہے۔
امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان نے امریکی تعاون کے حصول کے لیے گزشتہ دہائی میں20ارب ڈالر امدا د لی، وہ امداد پاکستانی فوج کا افغان طالبان سے دور ہونے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو سست کرنے کے لیے تھی۔ایرانی نشریاتی ادارے نے لکھا کہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے لئے پلوٹونیم کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان جوہری پیداوار میں فرانس سے بھی سبقت لے گیا ہے۔فرانس دنیا میں290نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔پاکستان میں70ہزار افراد نیو کلیئر صنعت سے وابستہ ہیں۔ملک بھر میں2ہزار افراد پاکستان کے نیو کلیئر رازوں سے آگاہ ہیں۔
برطانوی اخبارڈیلی میل کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پلوٹونیم کی پیداوار کے چوتھے ری ایکٹر کی تعمیر میں تیزی سے مصروف ہے۔ 2009 میں یہ جگہ بنجر تھی اور صرف17ماہ میں اربوں ڈالر کی لاگت سے تعمیر یہ پلانٹ سیٹیلائٹ کی نظروں سے اوجھل تھا۔ خوشاب میں جوہری پیداوار کی جاری سرگرمیوں سے خوشاب دنیا کا تیز ترین جوہری پروگرام بن چکا ہے جس سے امریکا کو تشویش ہے اور امریکا اور پاکستان میں کشیدگی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
بھارتی اخبارٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بھارت کے ساتھ کسی بھی سرحدی جھڑپ میں استعمال کرسکتا ہے۔ امریکا کے سی این ایس نیوز کے مطابق جس دن نیو ویک میں یہ رپورٹ شائع ہوئی اسی دن امریکی سینیٹر جان کیری نے پاکستان کو یقین کرائی کہ امریکا پاکستانی کے جوہری ہتھیاروں کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں کر رہا۔ امریکی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹر نیشنل کے مطابق پاکستان کا پہلا ری ایکٹر1998 اوردوسرا ری ایکٹر2009میں آپریشنل ہو گیا تھا۔ تیسرے ری ایکٹر پر2006سے کام شروع کیا گیا اور چوتھے پر کام جاری ہے۔ پاکستان موجودہ سطح پر اتنی یورانیم اور پلوٹینم افزود کرچکا ہے کہ وہ سالانہ 7سے16جو ہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔جب چاروں ریکٹر آپریشنل ہو جائیں گے تو سالانہ جوہری ہتھیاروں کی تیار کرنے کی پاکستانی صلاحیت دوگنا ہو جائے گی اور پاکستان کو سالانہ19سے26ہتھیار بنانے کے لیے مزید میٹریل کی ضرورت پڑے گی۔
امریکی جریدے نیشنل جرنل کے مطابق پاکستان کو نیو کلیئر اثاثوں کے حوالے سے اس سے قبل امریکا سے خطرہ نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ امریکی فورسز پاکستان کے ایڈوانس ایئر ڈیفنس نظام کو جام کر کے مخصوص قسم کا آپریشن کرسکتی ہیں اور اسامہ بن لادن کی طرح پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو لے جائیں گے۔لیکن اس ایکشن میں رکاوٹ ایران کی طرح پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی لوکیشن کی بے خبری ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک نے ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان کی سلامتی صرف جوہری ہتھیاروں سے ممکن ہوئی ورنہ آج پاکستان کا حال لیبیا اور عراق کی طرح ہوتا۔ دوسری طرف دنیا بھر کی دیگر طاقتیں جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہیں ۔امریکی تھنک ٹینک فیڈریشن آف امریکن سائینٹسٹ کے مطابق دنیا بھر میں22ہزار6سو سے زائد نیو کلیئر وار ہیڈز ہیں جس میں 4830آپریشنل اسٹریٹجک،200 نان آپریشنل،14ہزار ملٹری ہتھیار اور8650ریزرو نیوکلیئر فورس ہے۔ان میں امریکا اور روس کے 2ہزار وار ہیڈ انتہائی الرٹ حالت میں ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق روس کے پاس11ہزار،امریکا کے پاس8500،فرانس کے پاس3سو، چین کے پاس 240،برطانیہ 225،پاکستان110،بھارت 100،اسرائیل80اور شمالی کوریا کے پاس10جوہری ہتھیار ہیں۔
آن لائن