2 جون 2011
وقت اشاعت: 8:39
آم کی بہار آگئی، ذوق غالب جواں ہوگیا
ذکر آم کا ہو اور غالب کا تذکرہ نہ آئے ، یہ ناممکن ہے۔ غالب کے آم کھانے کے شوق نے ہی آم کے قصوں اور لطیفوں کو اردو ادب میں مشہور کردیا ہے۔غالب کہا کرتے تھے کہ "آم ہوں اور خوب ہوں" آم چونکہ پھلوں کا بادشاہ ہے لہذا ایک عام پاکستانی بھی آم کے بارے میں یہی سوچتا ہے کہ آم ہوں اور بہت ہوں ۔۔۔مگر کیا کیجئے کہ یہاں مہنگائی نے' آم' کو 'عام' سے دور کردیا ہے۔
ہوسکتا ہے آم کو دوسرے ملکوں والے صرف بطور پھل ہی استعمال کرنے کے عادی ہوں مگر پاکستان میں یہ سالن کے طور پر بھی روٹی کے ساتھ کھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آم کا گودا نکالا، اس میں ہلکا سا نمک ، پیاز ولال مرچ ڈالی اور بن گیا سالن۔یقین مانئے دوپہر کے وقت بہت سارے غریب گھرانوں میں یہی ہوتا ہے ۔۔اس دن گوشت ، دال یا سبزی نہیں بنتی بلکہ یہ بات پر بھی خوشی کا اظہار ہوتا ہے کہ سالن بھی بن گیا اور آم کے مزے بھی لے لئے۔۔شاید اسی پہلو نظر میں رکھتے ہوئے کسی نے یہ محاورہ ترتیب دیا ہوگا کہ" آمو ں کے آم۔۔اور گٹھلیوں کے دام "
کراچی ہی نہیں ہر شہر کے بازاروں میں آم کے ٹھیلے لد گئے ہیں ۔ ایک ایک ٹھیلے پر کئی کئی قسم اور رنگوں کے آم خریداروں کے منتظر ہیں۔ غریبوں کا خیال ہے کہ ابھی نیا نیا آم کا موسم آیا ہے لہذا مہنگا ہوگا کچھ دیر انتظار کرلیا جائے جبکہ امیروں کا کہنا ہے کہ ذرا بارش پڑے تو آم کھائیں کہ بارش میں آم کھانے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ پنجاب کے کچھ شہروں میں ابرکرم برس گیا ہے ، سندھ ابھی پیاسا ہے مگر کراچی کا موسم دو دنوں سے صبح وشام کے اوقات میں سہانا ہے اور لگتا ہے کہ بادل اب برسا اور جب برسا۔
آموں کے داموں میں دوڑ لگی ہے صرف' لنگڑا' ہے جو ڈور میں زرا پیچھے ہے اور جو کم داموں میں آم کھانا چاہتے ہیں وہ' لنگڑے کی مجبوری' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی کو دبوچ لیتے ہیں۔ بیضوی و' لمبوترا' لنگڑا شیریں اور رس دار ہوتا ہے جبکہ اس کا چھلکا پتلا ہوتا ہے جو گودے کے ساتھ چمٹا رہتاہے ۔
لنگڑے کے بعدزرد گودے والے چونسا کا نمبر آتا ہے جس کی خوشبو اور مٹھاس اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ اس قسم میں ریشہ کم ہوتا ہے اور گٹھلی پتلی ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ اس کی ابتدائی قیمت60 روپے کلو ہے یعنی لنگڑے سے بیس روپے زیادہ ۔
پاکستانی آموں کی ایک اور قسم' سندھڑی' بھی انتہائی مشہور ہے ۔ اس کی چھلکا زرد ہوتا ہے اور گٹھلی لمی و موٹی ہوتی ہے ۔ 'دسہری" آم کی شکل لمبوتری ہوتی ہے اور اس کا چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا ہوتا ہے ۔'الماس' نامی قسم کا رنگ زردی مائل سرخ ہوتا ہے ، اس قسم میں ریشہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور شکل بیضوی ہوتی ہے ۔
چھوٹی گٹھلی والا 'مالرا' ،پیلے رنگ کی چمک کے ساتھ' نیلم 'اور انتہائی میٹھا 'سہارنی' بھی پاکستان سر زمین کی پیداوار ہے ۔' فجری ' اور 'انور اٹول 'بھی آموں کی ہی قسمیں ہیں جنہیں دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
برصغیر میں چار ہزار سال قبل بھی آم بویا جاتا تھا۔ اس کی تمام اقسام کی پیداوار دو طریقوں سے ہوتی ہے یعنی تخمی اور قلمی۔ تخمی آم کا پکنے کے بعد رس چوسا جاتا ہے جبکہ قلمی آم کو تراش بناکر اس کی قلم بنائی اور بوئی جاتی ہے ۔
کچا آم جن میں گٹھلی نہیں ہوتی کیری کہلاتا ہے جس کا ذائقہ انتہائی ترش ہوتا ہے ۔اس کا اچار بھی بنایاجاتا ہے جو سارا سال گھروں میں استعمال ہوتا ہے ۔ کیری کا شربت اور مینگو کا شیک بھی خوب پیاجاتا ہے۔ مینگو فلیور بھی اس قدر مشہور ہے کہ جب آم کا موسم نہ ہو لوگ مینگو فلیورڈ آئس کریم کھا کر آم کی یاد تازہ کرلیتے ہیں۔
آم کی افادیت سے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی ایک شخص انہیں ایک بار میں نہیں گنوا سکتا ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پیدا ہوانے آموں کی اقسام کے مقابلے میں پاکستانی آم اپنے ذائقہ ، تاثیر ، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے سب سے منفرد ہیں۔