پہن کر آئینے پھرتی رہی دیوانگی اپنی
سخاوت کا نمود افروز ، منظر ہی نہیں آیا
سخی بیٹھے رہے ، کوئی ، گداگر ہی نہیں آیا
یہ سوچا تھا تیری خاطر ، کوئی موتی نکالوں گا
میں جس رستے میں تھا اس میں ، سمندر ہی نہیں آیا
پہن کر آئینے پھرتی رہی دیوانگی اپنی
تمنا تھی بہت جس کی وہ پتھر ہی نہیں آیا
بہاریں ، بیلیں ، جھڑے پتے ، لگے جالے دریچوں پر
مکین ایسا گیا گھر سے پلٹ کر ہی نہیں آیا
چمک جس کی بلا لیتی عقابوں کو نشیمن سے
فضاؤں میں کوئی ایسا کبوتر ہی نہیں آیا
دفینوں کی طرح دل میں خزانے رہ گئے سارے
سمندر کیا کرے ، کوئی ، شناور ہی نہیں آیا
دیا ہی جب نہیں ہو گا ہوا کس کو بجھائے گی
چراغ راہ ، میں اب کے ، جلا کر ہی نہیں آیا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ