باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کے تعویز بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سویرے تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نا آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چننا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہش اٹھی ہے ہمارے دل میں
کر کے مُنا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہے ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلائیں تم کو
ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
آن دینے کی اِجازَت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے مناّ لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہے خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
کر کے مُنا سا ہواؤں میں اچھالیں
Posted on Aug 22, 2011
سماجی رابطہ