فلم جراسک پارک کی کہانی سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ حقیقت میں سائنسدان کو بیس ملین سال پرانی مکڑی ملی ہے جو زرد رنگ کے عنبر کے فوسل میں آج بھی بالکل محفوظ ہے اور اب سائنسدان اس مکڑی کے سربستہ راز کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مکڑی کا یہ فوسل ڈاکٹر ڈیوڈ پینی کوڈو مونیکن ریپبلک میں ملا تھا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نے حساس ٹیکنالوجی کی مدد سے مکڑی کے خون کے ذرات حاصل کیے ہیں۔ جس سے وہ اس بات کا پتہ لگائیں گے کہ مکڑی کے مرنے کی اصل وجہ کیا رہی ہوگی۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ درخت پر چڑھتے ہوئے آدھے انچ لمبے اور پون انچ چوڑے گوند میں پھنس گئی۔ جبکہ اس نسل کی مکڑیاں آج بھی جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر پینی نے بتایا کہ مکڑی سے حاصل ہونے والا خون بیس ملین سال پرانے جاندار کے DNA کا اچھا منبع ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کی تحقیق جراسک پارک میں دکھائی جانے والی تحقیق سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ جس میں درخت سے نکلنے والی گوند کے اندر مرجانے والا مچھر لاکھوں سال بعد بھی محفوظ رہا اور جب اس گوند کے فوسل میں بند مچھر میں سے خون نکال کر DNA ٹیسٹ کیا گیا اور اس سے ٹوٹی ہوئی کڑیاں جوڑ لی گئیں جس کے نتیجے میں انسان اور ڈائینوسارز کو دوبارہ زندہ کرلینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ قبل ازیں سائنس جرنل میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ سائنسدانوں نے 70 ملین سال پرانے ڈائینوسارس ریکس کی فوسل شدہ ہڈی میں سے بون میرو نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہڈی میں سے الاسٹک سوفٹ ٹشوز، خون کے خلیات اور حتیٰ کہ ہڈی کے خلیات بھی موجود ہیں۔
بیس سال پرانی مکڑی
Posted on Sep 15, 2012
سماجی رابطہ