اب ائیرپورٹوں پر دہشت گردوں کی شناخت کے لیے چوہوں کی مدد لی جائے گی۔ اس طرح اسکیز مشین اور کتوں کے ساتھ اب چوہے بھی دہشت گردوں کو پکڑنے میں امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی مدد کریں گے۔ لٰہذا اب جلد ہی کارٹون کردار ڈینجرس ماؤس حقیقی دنیا میں بھی منشیات فروشوں کو نسیت و نابود کرنے کا کام سونپا جائے گا۔ جو فی الوقت اسرائیل میں تربیت حاصل کررہا ہے۔
اسرائیلی محققین کا کہنا ہے کہ یہ کھوجی یا سراغ گیر، کتوں، پالتو جانوروں یا ایکسرے مشین سے زیادہ بہتر کام کرے گا۔ چوہوں کی اس تفشیشی ٹیم کو منشیات فروشوں اور آتش گیر مادے لے جانے والے دہشت گردوں کے لیے خصوصی تربیت دی جارہی ہے۔ بالکل 1980ء کے سیکرٹ ایجنٹ چوہے کے کردار"ڈینجرس ماؤس" کی طرح تیار کیا جارہا ہے۔ ان سونگھنے والے چوہوں کو ائیرپورٹ کے اسکینر میں چھپا دیا جائے گا جہاں وہ الارم بجانے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے بشرطیکہ انہیں سراغ مل جائے۔
یہ چوہے بالکل دھاتی ڈی ٹیکر اور پورے جسم کے اسکینر کی طرح سے کام کریں گے اس مقصد کے لیے کارتوسوں اور آتش گیر مادے سے بھرے گھروں میں تربیت دی جارہی ہے اور ہر جگہ پر آٹھ چوہوں کو تربیت کے لیے رکھا گیا ہے ان جانوروں کی ٹیم چار گھنٹوں کی شفٹ میں کام کررہی ہے۔ انہیں فضا میں موجود آتش گیر مادے کی بُو سے بھی روشناس کیا جارہا ہے تاکہ وہ ہرطرح کے خطرے سے باخبر ہونا سیکھ لیں اور مِیلوں دور سے سونگھ کر خطرے کی نشانداہی کردیں۔
نیوسائن ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق جونہی ان چوہوں کو آتش گیر مادے یا منشیات کا سراغ ملے گا یہ قریبی چیمبر میں دوڑ کر الارم بجا کر تفشیشی ٹیم کو خطرے سے آگاہ کردیں گے۔
اس اچھوتے خیال کے موجد ایرین لمبروز کی بائیو ایکسپلوررس کمپنی اس ضمن میں آخری مراحل پر کام کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سونگھنے کا یہ عمل بالکل اسی طرح سے ہوگا جس طرح چوہے بلی کو سونگھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا فرار ہمیں دہشت گردی کی نشاندہی میں مدد کرے گا۔
اس کام کے لیے تربیت لینے والے چوہوں سے چار گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ اسی دوران ہرچار گھنٹے کی شفٹ میں فضا میں کارتوسوں اور آتش گیر مادے کی بُو بھر کے انہیں شناخت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یوں چار گھنٹے کے کام کے بعد انہیں آٹھ گھنٹے آرام کے لیے دئیے جاتے ہیں اور کام پر جانے سے قبل کچھ وقت کھیل کے لیے بھی دیا جاتا ہے۔ گویا کہ اسے ایک سخت تربیت بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس دوران چوہوں کو پہلی خوشبو پہچاننے میں تقریباً دس دن صرف ہوئے۔ اسی طرح ہر نئی بُو سے مانوس ہونے میں انہیں چند روز لگ جاتے ہیں۔
کتوں کے برعکس چوہوں کو مستقل گفتگو اور ٹرینر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے سامنے کھانے کی چیزوں کا ڈھیر رکھ کر انہیں کام کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اس نئے کھوجی کا مقصد ائیرپورٹ پر مختلف لوگوں کی شکایات کا آزالہ کرنا ہے جنہیں مکمل جسم کی اسکینر کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی عزت نفس کو محروح کرنے کے مترادف ہوتا ہے اس کے علاوہ ایکسرے مشین کی ریڈی اشن کے نقصاندہ اثرات سے بچنے کے لیے یہ کھوجی چوہے بہت اہم تصور کیے جارہے ہیں۔
سیکورٹی کے ماہر بروس شینئیر کا کہنا ہے کہ جانوروں کی ناک سونگھنے کے لحاظ سے بہت اہم آلہ تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کسی کو برہنہ دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی۔ اسکینر میں چھپایہ چوہا سونگھ کر ہی مشتبہ فرد کی نشاندہی کردے گا۔ چوہوں کے لیے تیار کئے جانے والے اس نئے آلے کو گزشتہ سال تل ابیب کے شاپنگ مال کے ایک ہزار دکانداروں کی دکانوں میں نصب کرکے تجربات کیے گئے تھے۔ اس دوران ان چوہوں نے بڑی کامیابی سے 22 مشتبہ افراد کی جیبوں میں چھپے آتش گیر مادے کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتار کروایا تھا۔ یہ نیا اسکینر اس سے قبل استعمال کیے جائے والے آلات سے بہت سستا ہے اور اگلے دو ماہ میں انہیں باقاعدہ مختلف مقامات پر استعمال کیا جانے لگے گا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر ائیرپورٹ پر بلی نظر آگئی تو یہ چوہے کس طرح کے رد عمل کا مظاہر کریں گے۔
چوہے پکڑنے چلے دہشت گرد
Posted on Mar 22, 2011
سماجی رابطہ