سائنسدانوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو خراٹے لینے والے کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوگا۔ اسے رات کو ناک سے لگانے کے بعد خراٹوں کی آواز بند ہوجاتی ہے۔ پلاسٹک کے بنے ہوئے اس چھوٹے آلے کا سب سے پہلا تجربہ مسٹر سوئیزر پر کیا گیا جو اپنے خوفناک خراٹوں کی وجہ سے تمام گھر والوں کے لیے ایک عذاب بن گیا تھا۔ وہ بیس سال سے خراٹوں کے مرض میں مبتلا تھا اور اس کے خراٹوں کی آواز بالکل اتنی ہی تھی جتنی کہ ایک موٹرسائیکل کو اسٹارت کرتے وقت ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں نے خراٹوں کی آوازکی شدت کا اندازہ 87٫5 ڈیسیبل لگایا تھا۔ اس کا نام چھ سال تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا میں سب سے اونچے خراٹے لینے والے کے طور پر درج رہا تھا کہ ایک شخص نے اس کی جگہ لے لی جس کے خراٹوں کی آواز کی شدت 90 ڈیسیبل تھا۔ علاج معالجے کے باوجود وہ اس مرض سے نجات حاصل نہ کرسکا۔ ایک روز اس نے سویڈن کی ایک فرم کا بنا ہوا ایک آلہ استعمال کیا جسے مریض سانس کی نالی کو کھلا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوئیزر کی بیوی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے شوہر کے خراٹوں کی آواز مدھم ہوگئی ہے۔ اس رات وہ کئی برسوں کے بعد آرام کی نیند سوسکی۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ اس کا شوہر مرگیا ہے کہ لیکن نبض ٹٹولنے کے بعد اسے حوصلہ ہوا کہ وہ سو رہا ہے۔ البتہ اس کے خراٹوں کی آواز بہت کم ہے۔ پلاسٹک کا بنا ہوا یہ آلہ اڑھائی انچ لمبا اور صرف چھ ڈالر میں دستیاب ہے۔
خراٹوں سے نجات
Posted on Dec 10, 2011
سماجی رابطہ