1976ء میں مریخ پر جانے والی امریکی خلائی مشن وائی کنگ نے مریخ پر لاکھوں ڈائنوسارز کا وجود معلوم کرلیا تھا لیکن اسے نامعلوم وجوہات کے باعث سولہ سال تک دنیا سے مخفی رکھا گیا۔ کینیڈا کے ایک جریدے ویکلی ورلڈ نیوز نے سوئٹزرلینڈ کےایک سائنسدا ڈاکٹر مارشل بشوف کے حوالے سے اپنی جون 1992ء کی اشاعت میں چند تصاویر شائع کی ہیں جن میں مریخ پر ڈائنوسارز کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ان میں ایک تصویر میں ہزاروں ڈائنوسارز کے ایک ریوڑ کو چلتا پھرتا دکھایا گیا ہے۔ ڈاکٹرمارشل کے مطابق انہوں نے یہ تصاویر"ناسا" سے اپنے ذرائع سے حاصل کی ہیں۔ سوئنس سائنسدان کے مطابق مریخ پر پائے جانے والے ڈائنوسارز کا قدوقامت بالکل اسی طرح کا ہے جیسے کہ ہماری زمین پر لاکھوں برس قبل ڈائنوسارز موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ زمین کی طرح مریخ پر بھی زندگی کا وجود ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناسا نے مریخ پرزندگی کے وجود کو سولہ سال تک چھپائے رکھا لیکن اب حقائق سامنے آرہے ہیں۔ ناسا کو اب بند فائلیں کھول دینی چاہیے اور عوام کو بتانا چاہیے کہ وہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے۔ ڈاکٹر مارشل یشوف کے مطابق یہ دستاویز اور تصاویر اس نقطہ نظر سے شائع نہیں کی گئیں کہ ان سے لوگوں میں خوف وہراس پھیلتا بلکہ کائنات میں زندگی کے متعلق عام نقطہ نظر کو بھی دھچکا لگتا۔ کائنات میں انسان نہ تو ماضی میں اکیلا تھا اور نہ اب ہے۔ بلکہ انسان زمین اور دیگر سیاروں پر پائی جانے والی حیات کا ایک حصہ ہے۔ فرانسیسی خلانورد مارک گیلین نے ڈاکٹرمارشل کی تحقیق کو تاریکی میں روشنی کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ناسا نے اپنی خلائی تحقیق کو ہمیشہ تاریکی میں رکھا ہے لیکن حقائق کو زیادہ عرصہ تک چھپایا نہیں جاسکتا، بالآخر وہ منظرعام پر آہی جاتے ہیں۔
مریخ پر زندگی
Posted on Oct 20, 2011
سماجی رابطہ