اللہ تعالیٰ کی رضا مندی میں ہی بھلائی اور بہتری ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ندے کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔
اسلامی اقوال
اپنے گناہوں پر نادم ہو کر معافی مانگنے پر اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے۔
شیطان کی راہ نافرمانی اور تکبر ہے اور انسان کی راہ اطاعت اور عاجزی ہی ہے۔
انسان کے ساتھ خدا کی مدد اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ اس کا مطیع رہتا ہے مگر جب وہ نافرمانی کرتا ہےتو اللہ کی مدد باقی نہیں رہتی۔ اور انسان اپنے نفس کے تابع ہوکر برائیوں میں پھنس جاتا ہے۔
انسان کے اندر خوب سے خوب تر اور مفید سے مفید تر کی تلاش کا جزبہ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔
انسان کھلی ہوئی برائی کی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے اور اسی گناہ پر شیطان اور اس کے چیلے انسان کے خیر خواہی کا بھیس بدل کر آتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے انسانی شرم و حیا پر ضرب لگاتا ہے تاکہ وہ بے حیا ہو کر آسانی سے گناہ کرسکے۔
انسان کے اندر شرم و حیا فطری جذبہ ہے۔ اس لیے آدمی اپنا ستر کھولتے ہوئے فطرتاً شرم محسوس کرتا ہے۔
اگر کسی شخص کو دعوت دی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کی اور جو شخص بن بلائے چلا جائے تو گویا چور اندر گیا اور چوری کرکے باہر آگیا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں گے رہتے ہیں لیکن مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت کے ذریعے وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں چناچہ وہ جہنم کے سزاورار ہوجاتے ہیں۔
سماجی رابطہ