ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار اور سزا وار ہے۔
اسلامی اقوال
حق تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
لوگوں کو توحید کی تعلیم دو تاکہ فلاح پاؤ۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی کرو۔
مومن وہ حقیقی ہوتا ہے جس میں گیارہ خصلتیں ہوں:
۱۔ خدا کو پہچان کر اس کے احکام کے مطابق عبادت کرنا۔
۲۔ نیک اور بد میں تمیز کرنا اور نیک کا ساتھ دینا۔
۳۔ بادشاہ وقت کا حکم بجا لانا مگر وہ حکم توحید کے خلاف نہ ہو۔
۴۔ ماں باپ کے حقوق کو جاننا اور ان پر عمل کرنا۔
۵۔ انسان کے اندر صلح رحمی کا جذبہ ہونا تاکہ محبت الفت کے جذبات پروان چڑھیں۔
۶۔ لوگوں سے نیکی کرنا اور محبت سے پیش آنا۔
۷۔ مصیبت میں صبر کرنا اور واویلا نہ کرنا۔
۸۔ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرنا کیونکہ جب انسان نعمت الٰہی کا شکر بجا نہیں لاتا تو وہ نعمت اُس سے چھن جاتی ہے۔
۹۔ غصے کو زیادہ نہ بڑھانا اور اس پر قابو رکھنا۔
۱۰۔ محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا۔
۱۱۔ غریبوں پر رحم کرنا اور ان کے گناہ معاف کردینا۔
ماں باپ کی خدمت کرو اور اُن کا حق ادا کرو۔
نیک و بد میں تمیز کرو۔
اللہ تعالیٰ کو پہچانو۔
انسان اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لہٰذا االہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا مندی میں ہی بھلائی اور بہتری ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ندے کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔
اپنے گناہوں پر نادم ہو کر معافی مانگنے پر اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے۔
شیطان کی راہ نافرمانی اور تکبر ہے اور انسان کی راہ اطاعت اور عاجزی ہی ہے۔
انسان کے ساتھ خدا کی مدد اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ اس کا مطیع رہتا ہے مگر جب وہ نافرمانی کرتا ہےتو اللہ کی مدد باقی نہیں رہتی۔ اور انسان اپنے نفس کے تابع ہوکر برائیوں میں پھنس جاتا ہے۔
انسان کے اندر خوب سے خوب تر اور مفید سے مفید تر کی تلاش کا جزبہ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔
انسان کھلی ہوئی برائی کی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے اور اسی گناہ پر شیطان اور اس کے چیلے انسان کے خیر خواہی کا بھیس بدل کر آتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے انسانی شرم و حیا پر ضرب لگاتا ہے تاکہ وہ بے حیا ہو کر آسانی سے گناہ کرسکے۔
انسان کے اندر شرم و حیا فطری جذبہ ہے۔ اس لیے آدمی اپنا ستر کھولتے ہوئے فطرتاً شرم محسوس کرتا ہے۔
اگر کسی شخص کو دعوت دی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کی اور جو شخص بن بلائے چلا جائے تو گویا چور اندر گیا اور چوری کرکے باہر آگیا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں گے رہتے ہیں لیکن مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت کے ذریعے وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں چناچہ وہ جہنم کے سزاورار ہوجاتے ہیں۔
اشیائے ضرورت کور وک دینے والا آدمی کتنا برا ہے اگر اللہ چیزوں کا نرخ سستا کرتا ہے تو اسے غم ہوتا ہے اور جب قیمتیں چڑھ جاتی ہیں تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں گے رہتے ہیں لیکن مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت کے ذریعے وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں چناچہ وہ جہنم کے سزاورار ہوجاتے ہیں۔
بہترین بیوی وہ ہے جب خاوند اسے دیکھے تو پھولے نہ سمائے اگر اُسے کوئی حکم دے تو فوراً بجالائے اور بہترین خاوند وہ ہے جو بیوی کے ساتھ حسن سلوک رکھے.
جو شخص جائز طریقے سے پیسہ کماکراس لئے پس انداز کرکے کسی سے سول کرنے سے بچے اور اپنے بال بچوں اور ہمسایوں پر خرچ کرکے وہ قیامت کے دن خدا سے یوں ملے گا کہ اس کا چہرہ کامل کی طرح روشن ہوگا۔
روپے کی خدا کے یہاں کوئی عزت نہیں۔
جس کو لوگوں پر رحم نہ آیا خدا اُس پر رحم نہ کرے گا۔
خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔
جو مصیبت تمہیں اللہ کی طرف متوجہ کردے وہ مصیبت نہیں نعمت ہے۔ اور جو نعمت تمہیں اللہ سے غافل کردے وہ نعمت نہیں مصیبت ہے۔
اپنے غصے کو اتنا مہنگا کردو کہ اس کو خریدنے کی لوگوں میں استطاعت نہ رہے اور اپنی خوشی کو اتنا سستا کردو کہ اسے ہر شخص مفت حاصل کرسکے۔
جسے اللہ نے دعا کی توفیق دی وہ مقبولیت سے محروم نہیں رہتا۔ جسے اللہ نے استغفار کی توفیق دی اور مغفرت سے محروم نہیں رہتا۔ اور جسے اللہ شکر کی توفیق دے۔ وہ نعمت سے محروم نہیں رہتا۔
برائی کی مثال پہاڑی سے نیچے اترنے کی سی ہے کہ تم ایک قدم نیچے رکھتے ہو تو دوسرے قدم خودبخود نیچے کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ ان کو مشکل سے روکنا پڑتا ہے۔ اور نیکی کی مثال پہاڑ پر چڑھنے کی طرح ہے کہ تم ہر قدم سنبھال کر رکھتے ہو تاکہ اوپر اپنی منزل تک پہنچ جائو
ایک شخص نے ایک بزرگ سے کہا۔”میں سکون چاہتا ہوں۔“
بزرگ نے فرمایا'' اس جملے سے”میں“ نکال دو کہ یہ تکبر کی علامت ہے۔”چاہتا ہوں“ نکال دو کہ یہ خواہش نفس کی علامت ہے۔ پھر”سکون“خودبخود تمہارے پاس ہوگا۔
اللہ کی عبادت کر، ورنہ اس کا دیا ہوا رزق بھی مت کھا۔
سماجی رابطہ