قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

یعنی وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں? ”یہی دین درست ہے?“ یعنی سیدھا اور صحیح راستہ ہے? ”لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے?“ اور وہ اس کے واضح ہونے کے باوجود اس تک نہیں پہنچ سکتے?
حضرت یوسف علیہ السلام کا اس موقع پر انہیں تبلیغ کرنا انتہائی حکمت و کمال کا مظہر ہے کیونکہ ان کے دلوں میں آپ کی عظمت جا گزیں ہوچکی تھی، لہ?ذا وہ آپ کی بات سننے اور تسلیم کرنے پر آمادہ تھے? اس لیے مناسب تھا کہ انہوں نے جو کچھ دریافت کیا انہیں اس سے زیادہ اہم اور زیادہ مفید امر کی طرف توجہ دلائی جاتی?
پھر جب آپ تبلیغ کا فرض ادا کر چکے اور ان کی رہنمائی فرما چکے تو فرمایا: ”اے میرے قید خانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہوجائے گا?“ علماءفرماتے ہیں کہ اس سے مراد ساقی ہے? ”لیکن دوسرا صلیب دیا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ کھائیں گے?“ کہتے ہیں اس سے مراد باورچی ہے? ”تم دونوں جس کے بارے میں استفسار کررہے تھے، اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے?“ یعنی یہ لازماً ہو کر رہے گا? اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا: ”جب تک خواب کی تعبیر نہ کی جائے، وہ پرندے کے پاؤں پر ہے? (اس کا واقع ہونا اور نہ ہونا دونوں ممکن ہیں‘ جیسے پرندے کے پیر میں پکڑی ہوئی چیز کا گرنا اور نہ گرنا دونوں ممکن ہیں) جب تعبیر کردی جائے تو وہ واقع ہوجاتی ہے?“ سنن ا?بی داود‘ الا?دب‘ باب فی الرو?یا‘ حدیث: 5020
ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا‘ اُس
سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کرنا لیکن شیطان نے اُن کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا اور
یوسف کئی برس جیل خانے ہی میں رہے?“ (یوسف: 42/12)
اللہ تعالی? بیان فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس شخص سے کہا جو اُن کے خیال میں نجات پانے والا تھا، یعنی ساقی سے کہا: ”اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا?“ یعنی بادشاہ کو میرا معاملہ بتانا اور میرا بغیر جرم کے قید ہونا ذکر کرنا? اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسباب کو اختیار کرکے کوشش کرنا جائز ہے اور یہ اللہ رب العالمین پر توکل کے منافی نہیں? ”پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا?“ یعنی شیطان نے چھوٹ جانے والے قیدی کو بھلا دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اسے جو تاکید کی تھی، اس کا ذکر بادشاہ سے کرتا? حضرت مجاہد، محمد بن اسحاق رحمة اللہ علیہما اور دوسرے متعدد علمائے کرام نے یہی فرمایا ہے اور یہی درست ہے? اہل کتاب کے ہاں بھی (بائبل میں) یہی لکھا ہوا ہے? قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی? ہے: ”اور اس (یوسف) نے کئی سال قید خانے ہی میں کاٹے?“ [بض±عµ] کا لفظ تین سے نو تک بولا جاتا ہے? علامہ منصور پوری? بیان کرتے ہیں کہ اکثر مفسرین کا اتفاق اس بات پر ہے کہ یوسف صدیق علیہ السلام زنداں میں سات سال تک رہے تھے? (الجمال و الکمال)
جن حضرات نے ?فَاَن±س?ہُ الشَّی±ط?نُ ذِک±رَ رَبِّہ? کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ”شیطان نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب کی یاد بھلادی?“ ان کا موقف درست نہیں?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.