قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

حضرت مُوس?ی علیہ السلام

نام و نسب اور قرآن مجید میں آپ کا تذکرہ

آپ کا نسب یوں ہے: موسی? بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ?اللہ تعالی? کا ارشاد ہے:
”اس قرآن میں موسی? کا ذکر بھی کر، جو چنا ہوااور رسول اور نبی تھا? ہم نے اسے طور کی دائیں
جانب سے پکارا اور سرگوشی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا اور اپنی خاص مہربانی سے اس کے بھائی
ہارون کو نبی بنا کر اسے عطا فرمایا?“ (مریم: 53-51/19)
قرآن مجید میں اللہ تعالی? نے بہت سے مقامات پر آپ کا ذکر فرمایا ہے‘ بعض مقامات پر اختصار کے ساتھ اور بعض مقامات پر تفصیل کے ساتھ? ہم نے ان سب آیات پر تفسیر میں اپنے اپنے مقام پر بات کی ہے? یہاں ہم قرآن و حدیث اور بنی اسرائیل سے منقول روایات کی روشنی میں موسی? علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو شروع سے آخر تک بیان کریں گے? ان شاءاللہ!
اللہ تعالی? نے فرعون کو راہ ہدایت دکھانے اور ظلم و ستم سے روکنے کے لیے حضرت موسی? علیہ السلام کو مبعوث فرمایا? ارشاد باری تعالی? ہے:
”ط?س?م?ّ? یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں? ہم آپ کے سامنے موسی? اور فرعون کا صحیح صحیح واقعہ بیان
کرتے ہیں‘ ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں? یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی
اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک جماعت کو کمزور کر رکھا تھا? ان کے
لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا‘ بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا? پھر ہم
نے چاہا کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا اور ہم انہی کو پیشوا اور
(زمین کا) وارث بنائیں ااور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور ہم فرعون اور
ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ (منظر) دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں?“
(القصص: 6-1/28)
اللہ تعالی? نے واقعہ کو پہلے مختصر طور پر بیان فرمایا‘ پھر اس کی تفصیل بیان کی‘ چنانچہ اللہ تعالی? نے بتایا کہ وہ اپنے نبی کے سامنے موسی? علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ صحیح صحیح بیان فرمائے گا‘ یعنی اس قدر صحیح کہ سننے والا تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے?
ارشاد باری تعالی?: ”یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کی تھی“ کا مطلب یہ ہے کہ فرعون نے ظلم و طغیان اور بغاوت و عصیان کا راستہ اختیار کیا‘ دنیا کی زندگی کو اہمیت دی اور رب عظیم و برتر کی اطاعت سے سرتابی کی اور ”وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا?“ یعنی اپنی رعیت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا? ”ان میں ایک فرقہ کو کمزور بنا رکھا تھا?“ اس سے مراد بنی اسرائیل کی قوم ہیں جو اللہ کے نبی یعقوب بن

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.