قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

حضرت موسی? علیہ السلام کے واقعے سے ہمیں ان بربادیوں کا ایک اہم سبب معلوم ہوتا ہے? وہ سبب اللہ تعالی? کے ساتھ کفر و شرک اور مخلوق خدا پر ظلم و ستم ہے، لہ?ذا جب یہ ظلم و ستم اور شرک و کفر حد سے بڑھ جاتا ہے تو عذاب الہ?ی انسانوں کو سبق سکھانے کے لیے وارد ہوجاتا ہے?
ارشاد باری تعالی? ہے:
”اس نے اور اس کے لشکروں نے ملک میں ناحق تکبر کیا اور سمجھ لیا کہ وہ ہماری طرف لاٹائے ہی نہ
جائیں گے? بالآخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کردیا? اب دیکھ لے کہ ان
ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟“ (القصص: 40'39/28)
اس سے معلوم ہوا کہ کفر و طغیان، ظلم و ستم، اور گناہوں کا ارتکاب، نیز مخلوق خدا کو تنگ کرنا، اللہ تعالی? کی نعمتوں سے محرومی اور اس کے عذاب کا اہم ترین سبب ہے? اللہ تعالی? نے آل فرعون کے عبرتناک انجام کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا:
”وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے، اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں
جن میں عیش کر رہے تھے? اسی طرح ہوا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا? سو ان پر
نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی?“ (الدخان: 29-25/44)
? عقیدہ? توحید‘ مضبوط ترین سہارا: حضرت موسی? علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ توحید انسان کا مضبوط ترین سہارا ہے? اگر اللہ تعالی? پر ایمان راسخ اور قوی ہو تو پھر کسی قسم کی ترغیب‘ لالچ‘ ڈر یا خوف انسان کو متزلزل نہیں کر سکتا? مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا انسان کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور ناز و نعم کے حصول پر شکر گزاری کی توفیق ملتی ہے کیونکہ ایمان باللہ کی تقویت انسان کو ہر حال میں اجر و ثواب کی بھر پور امید دلاتی ہے? اسی لیے جب فرعون نے جادو گروں کو حضرت موسی? علیہ السلام پر ایمان لانے پر قتل کرنے اور صلیب پر چڑھا دینے کی دھمکی دی تو انہوں نے نہایت اطمینان اور وقار کے ساتھ جواب دیا:
”ہم (مرکر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے? اور تونے ہم میں کونسا عیب دیکھا‘ سوائے اس
کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے جب وہ ہمارے پاس آئے؟ اے ہمارے رب!
ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال?“ (الا?عراف: 126'125/7)
جبکہ عقیدہ توحید سے محروم شخص یا سطحی اور کمزور ایمان والا مشکلات پر جزع فزع کر کے اجر و ثواب سے محروم ہوجاتا ہے اور مسرتوں کے حصول پر شکر کرنے کی بجائے شیطانی راہوں پر چل کر گناہ گار ہوتا ہے?
ایسے ہی شخص کے بارے میں ارشاد باری تعالی? ہے:
”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کنارے پر (کھڑے ہو کر) اللہ کی عبادت کرتے ہیں? اگر کوئی نفع
مل گیا تو دلچپسی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں? انہوں نے
دونوں جہانوں کا نقصان اٹھا لیا? واقعی یہ کھلا نقصان ہے?“ (الحج: 11/22)

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.