قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارے گناہ معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے ہوجائیں گے?“ (الا?عراف: 149/7)
جب حضرت موسی? علیہ السلام نے واپس آ کر انہیں بچھڑے کی پوجا میں مشغول دیکھا تو وہ تختیاں نیچے پھینک دیں جن پر تورات لکھی ہوئی تھی? بائبل میں لکھا ہے کہ ”موسی? علیہ السلام نے غصہ میں آکر وہ تختیاں زمین پر پٹخ کر توڑ ڈالیں? بعد میں اللہ تعالی? نے ان کے بدلے اور تختیاں دیں?“ (کتاب خروج، باب: 34'32) قرآن کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی? علیہ السلام نے تختیاں زمین پر ڈال دی تھیں?
بائبل میں ہے کہ ”یہ تختیاں صرف دو تھیں?“ (خروج‘ باب: 31، فقرہ: 18) قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی تختیاں تھیں? جب اللہ تعالی? نے حضرت موسی? علیہ السلام کو بتایا کہ قوم نے بچھڑا پوجنا شروع کردیا ہے تو آپ کو اتنا غصہ نہیں آیا، جتنا اس وقت آیا جب آنکھوں سے دیکھ لیا? حدیث نبوی ہے: ”(سنی ہوئی) خبر، آنکھوں سے دیکھنے کی طرح نہیں ہوتی?“ مسند ا?حمد: _215/1 فارسی میں بھی ضرب المثل ہے: ”شُنیدہ کَے بَوَد مانند دیدہ?“
اس کے بعد حضرت موسی? علیہ السلام نے انہیں زجر و توبیخ کی? انہوں نے ایک عذر پیش کیا جو درست نہیں تھا? کہنے لگے: ”ہم پر قوم کے زیورات کے جو بوجھ لاد دیے گئے تھے، انہیں ہم نے ڈال دیا? اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا?“ (ط?ہ?: 87/20) انہوں نے فرعونیوں کے زیوروں کو اپنے قبضے میں رکھنے میں حرج محسوس کیا، حالانکہ وہ دشمنوں سے حاصل ہونے والا مال تھا جسے لینے کا حکم انہیں اللہ تعالی? نے دیا تھا لیکن جہالت اور بے عقلی کی وجہ سے انہیں بچھڑے کا مجسمہ پوجنے میں کوئی حرج محسوس نہ ہوا جو محض ایک بے روح جسم تھا، لیکن اس میں سے رانبھنے کی آواز آتی تھی?
پھر آپ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتے دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا?“ یعنی آپ کو چاہیے تھا کہ میرے پاس (طورپر) آکر ان کی اس غلط روی کی اطلاع دیتے? انہوں نے عرض کی: ”مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تونے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا?“ (ط?ہ?: 95/20) یعنی آپ انہیں چھوڑ کر میرے پاس آگئے ہیں، حالانکہ میں آپ کو اپنا نائب بنا کر آیا تھا?
حضرت موسی? علیہ السلام نے فرمایا: ”اے میرے رب! میری اور میرے بھائی کی خطا معاف فرما اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمایا اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے?“ (الا?عراف: 151/7) حضرت موسی? علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی دعا میں شامل کیا کیونکہ انہوں نے لوگوں کو اس جرم عظیم سے سختی کے ساتھ منع کیا تھا? ارشاد باری تعالی? ہے: ”اور ہارون نے اس سے پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم اس بچھڑے سے تو صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے?“ (ط?ہ?: 90/20) یعنی اللہ کی تقدیر سے یہ واقعہ پیش آیا ہے اور تمہیں آزمانے کو اس نے اس بچھڑے میں آواز پیدا کردی ہے? ”تمہارا حقیقی پروردگار تو رحمن ہی ہے?“ یہ بچھڑا نہیں‘ لہ?ذا میری بات سن کر: ”تم سب

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.