قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

بھری‘ پھر اس کو (بچھڑے کے قالت میں) ڈال دیا اور مجھے میرے جی نے (اس کام کو) اچھا ظاہر
کیا? (موسی? نے کہا) جا تجھ کو دنیا کی زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ کہتا رہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا اور
تیرے لیے ایک اور وعدہ ہے (یعنی عذاب کا) جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا اور جس معبود کی پوجا پر تو
معتکف تھا، اُس کو دیکھ ہم اسے جلادیں گے‘ پھر اس کی راکھ کو اڑا کر دریا میں بکھیر دیں گے? تمہارا
معبود اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی کا علم ہر چیز پر محیط ہے?“ (ط?ہ?: 98-83/20)
ان مقامات پر اللہ تعالی? نے بنی اسرائیل کے اس وقت کے حالات بیان کیے ہیں جب حضرت موسی? علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق کوہ طور پر تشریف لے گئے تھے? وہاں آپ اللہ تعالی? سے ہم کلام ہوئے اور اللہ تعالی? سے بہت سے امور کے متعلق دریافت فرمایا اور اللہ تعالی? نے آپ کے سوالات کے جواب دیے?
اس دوران میں ایک شخص نے، جس کا نام ہارون سامری تھا، بنی اسرائیل کے وہ زیور لے لیے جو انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاً لیے تھے? اس نے انہیں ڈھال کر ایک بچھڑا بنایا اور اس میں مٹھی بھر مٹی ڈال دی? جو اس نے فرعون کے غرق ہونے کے وقت جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے نقش قدم سے اُٹھائی تھی? اس نے وہ مٹی اس مجسمے میں ڈال دی تو وہ اس طرح رانبھنے لگا جس طرح سچ مچ کا بچھڑا رانبھتا ہے?
بعض علماءکا خیال ہے کہ وہ واقعی گوشت پوست کا زندہ بچھڑا بن گیا تھا، اس لیے گائے کی طرح آواز نکالتا تھا? بعض کہتے ہیں کہ ہوا اس کی دبر میں داخل ہو کر اس کے منہ سے نکلتی تھی تو اسی قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی جیسے زندہ بچھڑے کی آواز ہوتی ہے? اس پر وہ لوگ خوش ہو کر اس کے ارد گرد ناچنے لگتے تھے? وہ کہنے لگے: ”یہی تمہارا بھی معبود ہے اور موسی? کا بھی لیکن موسی? بھول گیا ہے?“ یعنی موسی? کو یاد نہیں رہا کہ معبود تو ہمارے پاس ہے، وہ اسے کہیں اور ڈھونڈتا پھرتا ہے? اللہ تعالی? کی ذات اقدس ان فضول باتوں سے بہت بلند و برتر ہے، وہ مقدس اسماءو صفات سے متصف ہے اور اس کی نعمتیں بے شمار اور بے حد و حساب ہیں?
اللہ تعالی? نے ان کی توہم پرستی کی تردید فرماتے ہوئے اور ایک بے زبان جانور یاایک شیطانی شعبدے کو معبود قرار دینے کی حماقت کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ”کیا یہ (گمراہ) لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے؟“ (ط?ہ?: 89/20) اور مزید فرمایا: ”کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راہ بتلاتا تھا؟ انہوں نے اس کو معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا?“ (الا?عراف: 148/7) یعنی یہ حیوانی مجسمہ نہ بات چیت کر سکتا تھا نہ کسی نفع نقصان کا اختیار رکھتا تھا نہ کسی معاملے میں ان کی رہنمائی کر سکتا تھا? اس کی پوجا اپنی جان پر ظلم کے مترادف تھی جب کہ انہیں معلوم تھا کہ جہالت اور گمراہی کا یہ کام بالکل غلط ہے? ”اور جب وہ نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ وہ لوگ واقعی گمراہی میں پڑگئے تو کہنے لگے: ”اگر ہمارا

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.