قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ بات اس اسرائیلی نے کہی تھی جس نے موسی? علیہ السلام کا گزشتہ روز کا واقعہ دیکھا تھا? معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس نے جب موسی? علیہ السلام کو قبطی کی طرف بڑھتے دیکھا تو یہ سمجھا کہ وہ خود اس (اسرائیلی) کو سزا دینا چاہتا ہیں، کیونکہ آپ اسے فرما چکے تھے: ”تو تو صریح گمراہ ہے?“ اس لیے اس شخص نے موسی? علیہ السلام سے یہ بات کہہ کر کل والا راز فاش کردیا اور قبطی نے فوراً فرعون کے پاس جا کر موسی? کی شکایت کردی?
اکثر علمائے کرام نے یہی تشریح بیان کی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلام قبطی کا ہو? اس نے جب آپ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو ڈر گیا? اس نے اندازے سے یہ بات کہہ دی کہ ممکن ہے کل والے مقتول کو موسی? علیہ السلام ہی نے قتل کیا ہو? یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی نے فریاد کرتے وقت ایسے الفاظ استعمال کیے ہوں جس سے قبطی کو حقیقت کا علم ہوگیا ہو? (واللہ اعلم)
الغرض فرعون کو معلوم ہوگیا کہ وہ شخص موسی? علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا ہے? چنانچہ اس نے آپ کی گرفتاری کے لیے آدمی بھیجے? لیکن ایک وفادار آدمی ان سے پہلے قریب کے راستے سے موسی? علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا? جیسے کہ ارشاد ہے: ”شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا آیا اور کہنے لگا اے موسی?! سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں پس تو اس شہر سے چلا جا، میں یقینا تیرا خیر خواہ ہوں?“ اس لیے یہ بات بتا رہا ہوں? تفسیر ابن کثیر‘ سورة القصص‘ آیت: 21-18

حضرت موسی? علیہ السلام مدین تشریف لے جاتے ہیں

جب موسی? علیہ السلام کے اتفاقی قتل کی خبر بادشاہ تک پہنچ گئی اور اس نے آپ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو آپ خوفزدہ ہو کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”پس موسی? وہاں سے خوف زدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے? کہنے لگے: اے پروردگار!
مجھے ظالموں کے گروہ سے بچالے? اور جب مدین کا رُخ کیا تو کہنے لگے: مجھے امید ہے کہ میرا
رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا? جب آپ مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک
جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی (اپنے جانوروں کو) روک رہی ہیں?
پوچھا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ بولیں: جب تک یہ چرواہے واپس نہ چلے جائیں، ہم پانی نہیں
پلاتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں? پس آپ نے خود ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا‘
پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے: اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے،
میں اس کا محتاج ہوں?“ (القصص: 24-21/28)
ان آیات میں اللہ تعالی? اپنے بندے، اپنے رسول اور اپنے کلیم کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ وہ مصر سے نکلے تو اِدھر اُدھر دیکھتے بھالتے نکلے? آپ خوف محسوس کررہے تھے کہ فرعون کی قوم کا کوئی شخص آپ تک پہنچ نہ جائے? آپ کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کس طرف رخ کریں اور کون سی راہ اختیار کریں کیونکہ اس سے پہلے کبھی مصر سے باہر نہیں گئے تھے? ارشاد باری تعالی? ہے: ”اور جب مدین کا رُخ کیا?“ یعنی ایک راہ پر چل دیے‘ تو کہنے لگے: ”مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا?“ یعنی امید ہے کہ اس راہ

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.